Breaking News


مسخریاں
مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا                                        تحریر علی حسن
ہر پیشہ ہر انسان کے لیے نہیں ہوتا ۔ پرائیویٹ سیکٹر کی بورنگ ، روٹین زدہ اور یکسانیت بھری زندگی سے اکتا جانے کے بعد دل و دماغ نے ایک ہی فیصلہ کیا کہ ۔ ۔
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے یا پڑھا کر بچوں کو اپنا دشمن بنانا ہے ۔
سو مابدولت تدریس کے شعبہ میں باقاعدہ وارد ہوۓ ۔
ایک پرانے ٹیچر سے رابطہ کیا اور انکو اپنی من جملہ مشکلات کا بتایا نیز یہ بھی بتایا کہ
سر : " بندہ ذرا وکھری ٹائپ کا ہے ۔ ملٹی ٹیلینٹڈ اور ملٹی ٹاسکنگ ہونے کی ایسی لت پڑی ہوئی ہے کہ ایک وقت میں ایک کام کرنا فدوی کے لئے کسی بار گراں سے کم نہیں ہے۔ سو کوئی ایسا سلسلہ کریں کہ بندہ قائد کے فرمان کام کام اور بس کام کی گھمن گھیریؤں میں پڑا رہے اور یونہی زندگی کا سفر کٹ جاۓ ۔۔
استاد چونکہ استاد ہوتا ہے۔ شاگرد کی سوچ جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے استاد کی شروع ہوتی ہے سو میرے اندر کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا بلکہ مجھے کٹ کٹ کے بھرا ہوا روحانی ،فیضانی ، وجدانی اور گیانی قسم کا ہنر جان گیا۔۔۔
آخر کار پندرہ بیس منٹ کی نشست کے بعد انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے سلسلہ تعلیمیہ ، تدریسیہ ، ٹیچریہ ، پروفیسریہ میں باقاعدہ بیعت کر لیا گیا ۔
بیعت کے کچھ دن بعد جب انھیں یقین ہو گیا کہ میں اس حوالے سے سنجیدہ ہوں تو ایک دن استاد محترم نے مجھے بلایا اور نہایت شفقت سے پاس بٹھا کر ایک سوال کیا جس کے بارے میں یہ مضمون لکھا جا رہا ہے ۔
" علی یار ایک بات تو بتاؤ !!!
" جی سر حکم کریں ؟؟؟
میں ازلی ، نسلی ، فطری اور مصلحتی فرمانبرداری سے بولا۔
" چیزیں شیزیں یاد رہتی ہیں ؟
سوال غیر واضح تھا مگر سوال داغا جا چکا تھا ۔
" سر سلسلہ کچھ یوں ہے کہ چیزوں کی میں نے کبھی پرواہ نہیں کی اور باقی جہاں تک تعلق "شی"زوں کا ہے تو وہ بھلا کس کو بھولتی ہیں ؟
میں نے اپنے اندر کے پطرس بخاری کو جگاتے ہوۓ اپنی طرف سے ذومعنی جواب دیا ۔
" یار ڈرامہ نہ کرو اور بتاؤ کہ یاداشت وغیرہ پہ تو کوئی اثر نہیں ہوا ؟ "
سوال پانی کی طرح واضح ہو چکا تھا ۔
" نہیں سر ، ابھی تک تو ایسا کچھ نہیں ہوا "
میں نے حیرانی سے جواب دیا اور ان کی اس تمہید کا اگلا حصہ سننے کو کان ان کی طرف لگا دئے ۔
" ہو گا ۔ کچھ عرصہ تک ہو گا۔ پڑھانے سے وقتی طور پر شارٹ ٹرم میموری کمزور ہو جاتی ہے "
سر نے ایک بائیسویں گریڈ کے بابے کی طرح ایک معرفت بھری پیشین گوئی کر دی ۔
" سر یہ تو بہت برا ہوتا ہے ۔ ایسے تو میں گجنی بن جاؤں گا ؟
میں نے کچھ خوف زدہ انداز میں کہا ۔
" ہاں مگر یہ وقتی ہوتا ہے کچھ عرصہ بعد روٹین بن جاتی ہے ۔ "
سر نے کسی ماہر نفسیات کی طرح میری ناقص معلومات میں اضافہ کیا ۔
" آپ کے ساتھ ایسا ہوا ؟ "
میں نے اپنے دماغ میں کلبلاتے جستجوپسند ، تفتیشی اور چسکورے کیڑے کو شانت رکھنے کی خاطر پوچھ لیا ۔
سر بولے ،
یار کیا بتاؤں !!!
شادی کے ایک سال کے بعد ایک حسین شام میں اور تمہاری استانی چاۓ پی رہے تھے کہ یک دم تمہاری استانی مجھے کاسٹ اکاؤنٹنگ کی تمام مروجہ اصطلاحات کی تعریفیں سنانے لگ گئی ۔ ۔
میں نے پوچھا !!! ارے تم کو یہ سب کیسے پتا ؟ تم تو صرف بی اے ہو ۔
استانی بولیں۔ ۔۔ لو !! مجھے تو ایڈوانس اکاؤنٹنگ کی بھی ساری ٹرمز کا پتا ہے ۔
میں نے حیران ہوتے ہوۓ پوچھا ۔۔۔ مگر یہ چمتکار کیسے ہوا ؟
بولیں ۔۔ جناب آپ پچھلے ایک سال سے روز رات کو کئی کئی گھنٹے مسلسل بولتے ہیں ۔ اور میں نصیبؤں جلی سنتی ہوں۔ ۔
یاد ہو گیں ہیں مجھے ۔۔۔
میں یہ سن کر حیران ہو گیا اور سر سے پوچھا کہ
سر ! یہ تو بہت بڑی سمسیا ہے میرے جیسا انسان تو اول فول بھی بک دے گا ۔۔
خیر دوسری جو بھولنے والی بات آپ ارشاد فرما رہے تھے اس حوالے سے آپ کا تجربہ ؟؟؟
سر بولے ۔۔۔بس یار کچھ مت پوچھو ۔۔۔۔
سینکڑوں بار گھر ، گاڑی ، اکیڈمی اور لاکس کی چابیاں بھول چکا ہوں ،
اپنا ای میل اکاؤنٹ بھول جاتا ہوں ۔ ڈیبٹ کارڈ کا پاسورڈ بھول جاتا ہوں
اکثر تمہاری استانی کا فون اٹھا لاتا ہوں اور سارا سارا دن یہ سوچتا رہتا ہوں کہ مرے سسرال والے مجھے اتنے فون کیوں کرتے ہیں ؟
کھانا کھانا یاد نہیں رہتا ۔ کئی ایک مرتبہ کھانا سامنے رکھ کر فکرِ فردا میں غرق رہتا ہوں ۔
چاۓ بنا کر کپ میں ڈالتا ہوں اور کپ فریج میں رکھ دیتا ہوں ۔
دھونے والے کپڑے اٹھا اٹھا کر استری کرتا ہوں ۔۔
پڑوسیؤں کے بچوں کو جیب خرچ دے آتا ہوں۔ اپنے بچوں کو پڑھا کر ٹیوشن فیس مانگ لیتا ہوں ۔
پیاس لگتی ہے تو واش روم چلا جاتا ہوں اور واش روم جا کر بھول جاتا ہوں کہ یہاں کرنے کیا آیا تھا !!
اور تو اور تمہاری استانی کو کئی ایک مرتبہ " بہن جی " کہہ کر گھر کو پانی پت کا میدان بنا چکا ہوں ۔
یہ سب سن کر میرے کانوں سے دھواں نکلنا شروع ہو گیا اور میں نے دل ہی دل میں اس بیماری کے تدارک کا حل سوچنا شروع کر دیا ۔
میری چشم تصور میں کئی منظر آنے لگ گئے ۔۔۔
کسی میں ، میں بیچ سڑک کے بائیک لئے کھڑا سوچ میں غلطاں ہوں کہ اس بائیک کا ہنٹر کہاں ہے ؟
کسی میں ، میں کلاس میں کھڑا سوچ رہا ہوتا ہوں کہ آج اتوار والے دن بچے کیوں نہیں آئے ؟
کسی میں ، میں کسی اور گھر کا دروازے کے سامنے کھڑا سوچ رہا ہوتا ہوں کہ میرے گھر والوں نے پلاسٹک سرجری کب کروائی ؟
کسی میں ، میں فوتیدگی والے گھر یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا ہوتا ہوں کہ یہاں کوئی مجھ سے ہنس کر بات کیوں نہیں کر رہا ؟
اور کسی میں ، میں اپنے ہی کالج کے باہر سنیما کی ٹکٹس بلیک کرتا ہوا نظر آ رہا ہوتا ہوں ۔
اپنے چشم تصور کی اس واہیات منظر کشی کے بعد میں نے سر سے اس مسلے کا حل پوچھنا چاہا تو وہ حیرانی سے مجھے دیکھتے ہوۓ بولے ؛!!!!
" کون سا مسلہ ؟ "
میں نے انھیں یاد دلانے کو ساری رام کتھا دوبارہ سنائی ۔۔
سب سننے کے بعد وہ بولے ۔۔
" مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم کو اتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تم فکر مت کرو تم جلد ہی ٹھیک ہو جاؤ گے یہ لو یہ سیل ٹیکس ایڈوائیزر کا نمبر ہے ۔ان سے رابطہ کرو ۔ دیکھنا تمہارا نتیجہ اچھا آئے گا تم ایک نہ ایک دن اپنی سپلی ضرور کلیر کرو گے "
سر کی حالت اور ان کے اس " شافی " جواب نے میرے رہے سہے حواس بھی معطل کر دئے ۔
اور یوں میں نے اس دن فیصلہ کیا کہ ہاں ٹھیک ہے اب تدریس ہی میری زندگی کا نصب العین ہے ۔ مگر میں کبھی بھی اپنی ذات کے اوپر اس " غائب دماغی " کو حاوی نہیں ہونے دوں گا ۔
کبھی بھی اپنے آپ کو اس قدر کمزور نہیں ہونے دوں گا کہ کوئی بات بھول سکوں ۔۔
اس مقصد کے تحت میں نے کئی ایک قسم کے علاج شروع کئے ۔
جیسے ایک لسٹ بنانا جس میں تمام کرنے والے کام لکھ لیا کرتا تھا
پھر ایک بابا جی کا دیا ہوا ورد جو کہ کچھ یوں تھا
" اللّه مینو کج نہ بھولے "
اس کے علاوہ کئی طرح کے ریمائینڈر وغیرہ بھی زندگی کا حصہ بنا لئے ۔
کڑی محنت کے بعد آج میں اس مقام پر ہوں کہ میں اس بیماری سے دور ہوں ۔۔
مجھے کسی بھی قسم کا میموری ڈس آرڈر نہیں ہے ۔
میں چیزیں یاد رکھتا ہوں ۔
میں باتیں یاد رکھتا ہوں ۔
سو دوستو !!!
آپ سب بھی اپنے بچؤں کو پولیو کے قطرے ضرور پلائیں ورنہ آنے والے دور میں بینک کی شرح سود زیادہ ہو گئی تو امریکن سونڈی ہمارے نظام تعلیم کو ایسے تباہ کرے گی جیسے سردیؤں کی دھوپ انسانی صحت پہ خوشگوار اثر ڈالتی ہے ۔
امید ہے آپ اس بار الیکشن میں مجھے ووٹ دے کر کامیاب کریں گے تاکہ میں بڑا ہو کر ایک اچھا انسان بنوں ۔ اور اگلے میچ میں اچھی بولنگ کروا کر پاکستان کو سنوکر کا ہاکی ورلڈ کپ جتوا سکوں ۔ ورنہ روپے کی قدر ایسے ہی کم ہوتی رہے گی۔
خیر اب میں چلتا ہوں ۔
پتا نہیں کیوں اتنی سردی لگ رہی ہے جب کہ پنکھا بھی فل سپیڈ میں چل رہا ہے ۔۔
فقط
رکیں ، میں شناختی کارڈ سے دیکھ کر بتاتا ہوں

No comments

مسخریاں مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا                                        تحریر   علی حسن ہر پیشہ ہر انسان کے لیے نہیں ہوتا ۔ پرائی...